ایران پر دباؤ، معیشت خطرے میں! نئی ایٹمی ڈیل واحد امید؟

دبئی / پیرس: ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر بڑھ گئی ہے، خاص طور پر تہران کے یورینیم افزودگی پر اصرار کے بعد تین ایرانی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ اگر ایٹمی مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں، تو ایران کی مذہبی قیادت کے پاس کوئی واضح متبادل حکمتِ عملی موجود نہیں ہے۔

ذرائع کے مطابق، ایران شاید روس اور چین کی طرف جھکاؤ اختیار کرے، لیکن چین کی امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ اور روس کی یوکرین جنگ میں مصروفیت کے باعث یہ “پلان بی” بھی غیر یقینی دکھائی دیتا ہے۔

ایک سینئر ایرانی اہلکار نے کہا، “ہم موجودہ حکمت عملی جاری رکھیں گے۔ ہم کشیدگی نہیں بڑھائیں گے لیکن دفاع کے لیے تیار ہیں۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران اپنے اتحادیوں روس اور چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے پر توجہ دے گا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ کے مطالبات کو “انتہائی اور ناقابلِ قبول” قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بات چیت سے نتائج برآمد ہونے کی امید کم ہے۔

ایران کا اصرار ہے کہ وہ نہ تو اپنا یورینیم ذخیرہ ملک سے باہر بھیجے گا اور نہ ہی بیلسٹک میزائل پروگرام پر بات چیت کرے گا۔ اگلا دورِ مذاکرات جمعہ، 23 مئی کو روم میں ہوگا، جس کا اعلان عمان کے وزیرِ خارجہ نے کیا۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2015 کے معاہدے سے علیحدگی اور نئی “زیادہ سے زیادہ دباؤ” پالیسی کی بحالی نے ایران پر اقتصادی دباؤ مزید بڑھا دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، ایران کے پاس نئی ڈیل کے سوا کوئی بہتر راستہ نہیں بچا، تاکہ وہ اقتصادی بحران سے بچ سکے۔

ایران اس وقت معاشی بدحالی، بجلی و پانی کی قلت، کرنسی کی گراوٹ، علاقائی اتحادیوں کے فوجی نقصانات، اور اسرائیلی حملے کے خدشات جیسے بحرانوں کا شکار ہے۔

ذرائع نے کہا کہ اگر پابندیاں ختم نہ ہوئیں اور تیل کی آزادانہ فروخت نہ ہوئی، تو معیشت کی بحالی ممکن نہیں۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا

About The Author