
چیئرمین سی ڈی اے کا ٹریکر سسٹم مکمل ناکام
سی ڈی اے افسران کی ملی بھگت سے 180 لیٹر ڈیزل چوری، پولیس اور سی ڈی اے کی کرپشن
ویڈیو ثبوت ہونے کے باوجود اہم دفعات نہ شامل کرنا، سی ڈی اے میں جاری کرپشن کا پردہ چاک
اسلام آباد وفاقی دارالحکومت میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی سی ڈی اے کے شعبہ انوائرمنٹ سے سرکاری ڈیزل کی بڑے پیمانے پر چوری کا سنگین اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ تھانہ مارگلہ کی حدود ایف نائن پارک میں موجود انوائرمنٹ آفس کے اندر رنگے ہاتھوں سرکاری ڈیزل چوری کی ویڈیو سامنے آنے کے باوجود متعلقہ ادارے کے اعلیٰ افسران نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
پرموشن نیوز انویسٹیگیشن ٹیم کی نشاندہی پر ستائیس رمضان کو ہونے والی چوری کی ویڈیو اور تصاویری شواہد پولیس کو فراہم کیے گئے، جن میں چھ کینز میں بھرے 180 لیٹر ڈیزل اور ایک پرائیویٹ مہران گاڑی میں منتقل کرتے دکھایا گیا ہے۔ واردات کے دوران دو سی ڈی اے کے سیکیورٹی اہلکار گرفتار ہوئے جبکہ گاڑی کا ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔
حیرت انگیز طور پر تھانہ مارگلہ پولیس نے ایف آئی آر نمبر 167/25 میں صرف پانچ کینز کا ذکر کیا گیا اور ایف آئی آر میں اہم دفعات مثلاً دفعہ 409 اور کارِ سرکار میں مداخلت شامل ہی نہیں کی گئیں۔ اس سے قبل 2024 میں اسی نوعیت کی ڈیزل چوری پر ایف آئی آر نمبر 298/24 درج کی گئی تھی، جس میں ایک سیکیورٹی گارڈ کو ملوث ظاہر کیا گیا تھا،
تاہم بعد ازاں تفتیشی عمل میں اسے پرائیویٹ شخص ظاہر کر کے بچا لیا گیا۔ حیران کن طور پر وہی گارڈ موجودہ واقعے میں دوبارہ واردات کے وقت موقع پر موجود پایا گیا، جو سی ڈی اے اور مارگلہ پولیس کی ملی بھگت پر کئی سوالات اٹھاتا ہے۔
مزید تشویشناک امر یہ ہے کہ سی ڈی اے کے کسی ذمہ دار افسر نے تھانے جا کر نہ تو چوری شدہ ڈیزل کو سرکاری ملکیت تسلیم کیا اور نہ ہی کسی قسم کا تحریری مؤقف دیا، جس کے باعث مارگلہ پولیس نے دفعہ 409 جیسے اہم قانونی پہلو کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا۔
ذرائع کے مطابق یہ ڈیزل چوری کسی انفرادی کارروائی کا نتیجہ نہیں بلکہ طویل عرصے سے چلنے والے ایک منظم نیٹ ورک کی کارستانی ہے، جس میں کئی اہلکار اور افسران مبینہ طور پر شامل ہیں۔ سینئر اور تجربہ کار عملے کو نظر انداز کر کے مخصوص افراد کو سفارشی نوازا گیا،
جس سے اس ملی بھگت کا مزید انکشاف ہوتا ہے۔ پولیس کی جانب سے پولیس اہلکار پر حملے کے باوجود کوئی کارروائی نہ کرنا پورے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ دوسری جانب، برسوں سے جاری ڈیزل چوری کے باوجود اعلیٰ سطح پر لگایا گیا ٹریکر سسٹم ناکام ثابت ہوا ہے۔
شہریوں نے چیف جسٹس، وزیر داخلہ، چیئرمین سی ڈی اے اور آئی جی اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سنگین معاملے کی غیر جانبدار، شفاف اور اعلیٰ سطحی انکوائری کروائی جائے، دونوں ایف آئی آرز (298/24 اور 167/25) کی ازسرنو تفتیش کر کے اصل حقائق منظرعام پر لائے جائیں، اور قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے
More Stories
ٹائٹینک کے بچ جانیوالے مسافر کا خط 11 کروڑ میں فروخت
ایک آئی پیڈ کی وجہ سے امریکا سے جرمنی جانے والی پرواز واپس اتار لی گئی
کینیڈا، نوکری سے ایک دن کی چھٹی لے کر الیکشن لڑنے والا پاکستانی امیدوار