
اسلام اباد،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان نے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی تنظیموں کی مشاورت کے بعد پیکا ارڈیننس 2025 کو یکسر مسترد کر تے ہوئے میڈیا کے ساتھ ملکر عدالتی جنگ لڑنے کا اعلان کر دیا تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایپنک ، پی ایف یو جے ، سینیئر اینکرز اور صحافیوں کے ساتھ پیکا ارڈیننس 2025 ( میڈیا انڈر اٹیک )کے حوالے سے سپریم کورٹ ہال میں مشاورت کی ۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر میاں روف عطا ایڈووکیٹ اجلاس کی صدارت کی معروف صحافی منیزے جہانگیر نے اجلاس کی نظامت کی ۔
اجلاس میں ال پاکستان نیوز پیپر اینڈ الیکٹرانک میڈیا ایمپلائیز کنفیڈریشن (اپنیک )کے مرکز ی چیئرمین محمد صدیق انظر ۔ایف یو جے کے صدر افضل بٹ۔آر آئی یو جے کے صدر طارق ۔ ارشد انصاری۔ حامد میر۔ مظہر عباس عارفہ نور۔فوزیہ کلثوم رانا۔نسرین اظہر ،مطیع اللہ جان ،افتاب عالم ،ثاقب بشیر، غلام نبی یوسف زئی، کے علاوہ عبدالقیوم صدیقی۔چوہدری آفتاب احمد سندھو اور دیگر نے اپنی تجاویز پیش کیں اور ارڈیننس 2025 کو یکساں طور پر مسترد کر دیا سپریم کورٹ بار ایسوس اییشن کی طرف سے میاں روف عطا، ندیم قریشی، محمد اسحاق ،محمد اورنگزیب منزہ جہانگیر شعیب شاہین ایڈووکیٹ کے علاوہ دیگر سینیئر وکلا نے اجلاس میں شرکت کی اس موقع پر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میاں روف عطا نے کہا کہ پیکا آرڈیننس 2025 میں کی گئی ترامیم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتی ہے یہ ناقص قانون سازی عجلت میں کی گئی اس میں بد نیتی پنہا ہے تمام شقیں مبہم ہے ہر شخص کو مدعی کا درجہ دیا گیا ہے کسی فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی ایک ہی نیوز پر اگر ایک شہر میں ایف ائی ار درج کی جاتی ہے تو دیگر شہروں میں بھی اسی نیوز پر ایف ائی ار درج ہو سکتی ہے اس کے خلاف سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ ایک کیس پر ایک ہی جگہ ایف ائی ار ہو سکتی ہے انہوں نے کہا کہ اگر سچ بات دبائی جائے تو فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے اور فرسٹریشن کے بعد برائیاں جنم لیتی ہیں انہوں نے کہا کہ بنیادی حقوق کے خلاف جو بھی قانون سازی ہوتی ہے پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس پر سمجھوتہ کر لیتی ہیں تاکہ ان کے اقتدار کو دوام حاصل ہو سکے لیکن جب وہ اپوزیشن میں اتی ہیں تو ایسے قوانین کی مخالفت کررہی ہوتی ہیں انہوں نے میڈیا کو قانونی مشاورت اور مدد فراہم کرنے کے لئے سینیئر وکلا پر مشتمل کمیٹی جو گزشتہ عرصہ میں تشکیل دی گئی تھی وہ دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم میڈیا کے ساتھ ہیں میڈیا کی ازادی پر قدغن لگانے کے کسی بھی کوشش کی مخالفت کریں گے اس موقع پر ایپنک کے مرکز ی چیئرمین محمد صدیق انظر نے کہا کہ پیکا پروینشن اف الیکٹرانک کرائم ایکٹ یہ نام سے ہی پاکستان کے ائین پر ایک دھبہ ہے اس میں ساتویں بار 50 شقوں میں ترامیم ناقابل فہم ہے 2016 سے 2025 تک اس قانون میں سات بار تبدیلی ایک سوال ہے ترامیم امرانہ ذہنیت کی عکاس ہے جس میں اسٹیک ہولڈرز کی مقدم رائے سے چشم پوشی کی گئی ہے ایکٹ کی تمام شقیں قابل اعتراض ہیں لیکن شق نمبر 29 کو تو بالکل ہی امرانہ سوچ کے عکاس کہا جا سکتا ہے اس شق میں ترامیم کے ذریعے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کی زبان تالا بندی کا بندوبست کیا گیا ہے ہم اس کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہم پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ویج ایوارڈ اور میڈیا ورکر کی تنخواہوں اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے میڈیا ورکرز کو تعاون فراہم کرے کیونکہ ازادی کا لفظ صرف مالکان کے لیے مختص نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ لفظ میڈیا ورکر کے لیے بھی ہونا چاہیے
سینیئر اینکر حامد میر نے کہا کہ نوجوان نسل میں مزاحمت اور بغاوت کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے اسے روکنے کے لیے پیکا قانون لایا گیا اور بلوچستان میں جو اوازیں اٹھ رہی تھی اس کو بھی روکا جا سکے انہوں نے کہا سسٹم جو لوگ لے کر اتے ہیں وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہے ہیں اور جب ان کو سمجھ اتی ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ میڈیا مالکان کے ساتھ بھی دو نمبری ہو رہی ہے انہیں غلط گائیڈ کیا جا رہا ہے انہوں نے کہا کہ پیکا قانون کو ایک تلوار بنا کر سامنے لایا جا رہا ہے اب دیکھتے ہیں کہ کس کس کا سر تن سے جدا ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ ہم مزاحمت کریں گے ایسے قوانین کی اور ہم ہمارے ساتھ پورے پاکستان کی عوام ساتھ کھڑی ہوگی اس موقع پر افضل بٹ نے کہا کہ ہم اس کالے قانون کے خلاف سڑکوں پر ہوں گے اگر اس قانون کو فل فور واپس نہ لیا گیا تو اس میں کوئی دو رائےنہیں کہ ہم اس کی شدید مزاحمت کریں گے اور سڑکوں پر ہوں گے اس موقع پر ار یو جے کے صدر طارق عثمانی نے کہا کہ یہ مارشل لا کا تسلسل ہے صحافتی برادری اور عام پاکستانی اس کی مزاحمت جاری رکھیں گے بار ایسوسی ایشن ہمارے ساتھ کھڑی ہو اور منظم احتجاج کی کال دے ہم پورے پاکستان میں سڑکوں پر ہوں گے اور اس وقت تک سڑکوں پر ہوں گے جب تک یہ قانون واپس نہیں لیا جاتا ارشد انصاری نے کہا کہ فیک نیوز کہ ہم حق میں نہیں ہیں ایکٹ پر سیاست دان اس میں خود گریں گے ٹربیونل میں شامل ہونے کے لیے صحافیوں کو کہا جا رہا ہے کہ اس میں شامل ہوں لیکن ہم اس میں شامل نہیں ہوں گے کیونکہ ہم پورے پورے قانون کو مسترد کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ سٹیک ہولڈر سے ترامیم کرنے سے پہلے مشاورت کرنی چاہیے تھی لیکن جو نہیں کی گئی اور امرانہ سوچ کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے اگر یہ واپس نہ ہوا تو ہم سڑکوں پر ہوں گے تمام عدالتوں میں ہم نے اس قانون کو چیلنج کیا ہوا ہے اور عدالتوں سے ہمیں انصاف کی امید ہے عارفہ نور نے کہا کہ جو بھی حکومت اتی ہے وہ ازاد میڈیا نہیں چاہتی اور نہ ہی کوئی حکومت اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ ازادی صحافت کے حق میں ہے انہوں نے کہا کہ ایسی ترامیم کے ذریعے صحافیوں اور وکلا کو کیپسچر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن صحافتی تنظیمیں اس قانون کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر ہوں گی معروف قانون دان شعیب شاہین ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس قانون کا سب سے پہلے نشانہ ہم ہیں ہم اس کالے قانون کے خلاف صحافی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں اج کوئی ادارہ پابندیوں سے مبرہ نہیں ہے میں دو ماہ سے سٹریم میڈیا پر نہیں ا سکتا کیونکہ میں حق بات میڈیا پر ا کر کہتا ہوں یہی وجہ ہے کہ مجھ پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں اور ہر اس شخص پر پابندی لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو حق بات ٹی وی پر ا کر کہتا ہے انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کو سلو جان بوجھ کر کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے نسرین اظہر افتاب عالم مضر عباس ثاقب بشیر غلام نبی یوسف زئی فوزیہ کلثوم رانا اور ذوالقرنین نے کہا کہ ہم اس قانون کو یکسر طور پر مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ قانون نہیں بلکہ امرانہ سوچ کی عکاس ہے اگر اس قانون کو واپس نہ لیا گیا تو ہم دوبارہ سڑکوں پر ہوں گے اور ہم نے اور اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں وکلا تنظیموں اور کاروباری شخصیات کے علاوہ کاروباری چیمبرز کو بھی ہم اپنے ساتھ ملائیں گے اور اس کالے قانون کے خلاف سڑکوں پر ائیں گے اور حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے۔
More Stories
وسط ایشیا سے تجارت کیلئے ریلوے نیٹ ورک کو وسیع کیا جائے: وزیراعظم
غزہ میں مستقل فائر بندی کی قرار داد پر آج ووٹنگ متوقع
آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے ریوارڈ پروگرام کی تفصیلات طلب کرلیں